دورِ عمران خاں اور محکمہ پولیس
رات کا وقت تھا تو ایک جگہ پر ناکہ لگا ہوا تھا ناکہ سے ایک روایتی سیاستدان کی گاڑی گزری تو پولیس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو سیاستدان صاحب نے گاڑی نہ روکی تو پولیس نے موبائل پر ان صاحب کا پیچھا کیا اور انہیں پکڑ لیا ۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح گاڑی ناکہ پر نہیں رکی تو کسی غریب کی طرح اسے بھی شوٹ کیا جاتا اور اگر نہ کرتے تو دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسے بھی غریب کی طرح رات تھانہ میں خاطر تواضع کرتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ پاکستان بھی دوسرا فرانس ہے یہاں غریب اور امیر کے لیےاور قانون ہے بلکہ انہیں چھوڑ دیا گیا
سیاستدان صاحب کے اس واقعے کا علم حکامِ بالا کو علم ہوا تو انہوں نے DPO پر زور ڈالا کہ وہ سیاستدان سے معافی مانگے لیکن اس پر انکار کرنے پر اسے CM ہاؤس طلب کیا گیا اور بات نہ ماننے پر اسکا تبادلہ پاکپتن کر دیا گیا
اب بات کرتے ہیں کہ یہ واقعہ کب ہوا؟
یہ واقعہ حال ہی میں ہوا ہے اور اس میں سیاستدان بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا ہیں۔ اور یہ چوروں لٹیروں کا دورِ حکومت نہیں بلکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کا دور حکومت ہے اور سی ایم عثمان کے حکم سے یہ تبادلہ ہوا اب مجھے یہ بتائیں کہ یہ تھانہ کلچر کیوں اور محکمہ پولیس میں سیاست کا عمل دخل کیوں؟ کیا عمران خاں صاحب اس کلچر کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں
کہاں ہیں عمران خاں کے وہ وعدے کہ پولیس کو سیاسی تسلط سے آزاد کرینگے؟
کیا ان کی پارٹی کے باقی لوگوں پر ان باتوں کا اطلاق نہیں ہوتی