Monday, August 27, 2018

عمران خاں کے پولیس کو سیاسی تسلط سے آزاد کرنے کے دعوے

دورِ عمران خاں اور محکمہ پولیس

رات کا وقت تھا تو ایک جگہ پر ناکہ لگا ہوا تھا ناکہ سے ایک روایتی سیاستدان کی گاڑی گزری تو پولیس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو سیاستدان صاحب نے گاڑی نہ روکی تو پولیس نے موبائل پر ان صاحب کا پیچھا کیا اور انہیں پکڑ لیا ۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح گاڑی ناکہ پر نہیں رکی تو کسی غریب کی طرح اسے بھی شوٹ کیا جاتا اور اگر نہ کرتے تو دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسے بھی غریب کی طرح رات تھانہ میں خاطر تواضع کرتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ پاکستان بھی دوسرا فرانس ہے یہاں غریب اور امیر کے لیےاور قانون ہے بلکہ انہیں چھوڑ دیا گیا
سیاستدان صاحب کے اس واقعے کا علم حکامِ بالا کو علم ہوا تو انہوں نے DPO پر زور ڈالا کہ وہ سیاستدان سے معافی مانگے لیکن اس پر انکار کرنے پر اسے CM ہاؤس طلب کیا گیا اور بات نہ ماننے پر اسکا تبادلہ پاکپتن کر دیا گیا
اب بات کرتے ہیں کہ یہ واقعہ کب ہوا؟
یہ واقعہ حال ہی میں ہوا ہے اور اس میں سیاستدان بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا ہیں۔ اور یہ چوروں لٹیروں کا دورِ حکومت نہیں بلکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کا دور حکومت ہے اور سی ایم عثمان کے حکم سے یہ تبادلہ ہوا اب مجھے یہ بتائیں کہ یہ تھانہ کلچر کیوں اور محکمہ پولیس میں سیاست کا عمل دخل کیوں؟ کیا عمران خاں صاحب اس کلچر کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں
کہاں ہیں عمران خاں کے وہ وعدے کہ پولیس کو سیاسی تسلط سے آزاد کرینگے؟
کیا ان کی پارٹی کے باقی لوگوں پر ان باتوں کا اطلاق نہیں ہوتی

Wednesday, August 8, 2018

ضیغم مجتبیٰ کے ساتھ گزارے چند لمحات

میں نے 2006 میں چناب کالج میں داخلہ لیا 2006 سے 2013 تک بے شمار واقعات پیش آئے لیکن آج میں ایک واقعہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں اور یہ واقعہ کسی اور کا نہیں بلکہ حال ہی میں بے دردی سے قتل ہوئے ضیغم مجتبیٰ کا ہے
ساتویں یا آٹھویں جماعت میں کچھ نئے طالبِ علموں نے بھی داخلہ لیا ان لوگوں میں سے ایک طالب علم ضیغم مجتبیٰ بھی تھا ۔ میری اس سی کوئی گہری دوستی نہ تھی، بس سلام دعا ہی تھی اس کے ساتھ باتوں سے پتا چلا کہ ضیغم مجتبیٰ کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ ہی گھر کو چلا رہی ہیں ۔

خیر وہ سال تو نیسے تیسے گزر گیا فروری 2012 میں ہمارے پرچے ہو رہے تھے دوسرے طالبِ علموں کی طرح ضیغم بھی روزانہ ملت تھا ایک دن ایسا ہوا کہ ہمارے دو پرچے تھے درمیانی وقفے میں ہم نے آلو والے نان کھانے کا پروگرام بنایا تو ہم دونوں نے دوستوں سے سائیکل ادھار لئے اور عباس پورہ سکول سے نکلے ہم وہاں سے خالد بن ولید روڈ پر گئے جہاں ضیغم مجتبیٰ نے مجھے ایک جگہ روکا اور ایک سکول میں داخل ہوا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ اس کی والدہ وہاں پر استانی ہیں۔ ہم نے لاہوری نان شاپ پر 2یا 3 نان کا آرڈر دیا تھا اب میں نے اردگرد غور نہ کیا میرے بڑے بھائی بھی وہاں پر نان خریدنے آئے ہوئے تھے اور انہوں نے ہی ہمارا بھی بل دیا اور ہم کھانا کھا کر واپس پرچہ دینے پہنچے تو تھوڑا سا وقت زیادہ ہو چکا تھا لیکن پھر بھی ہم نے پرچہ دیا۔
اس سے واقعہ ایک سال بعد یعنی 2 مارچ 2013 کو میں نے ضیغم کو آخری بار دیکھا تھا اس کے بعد میرا اس سے کوئی رابطہ نہ تھا۔
7اگست کی صبح موبائل فون پر ایک دوست کے میسجز آئے ہوئے تھے کہ ضیغم مجتبی کی ایک ایکسیڈنٹ میں موت ہو گئی ہے۔ بعد میں جب خبر پڑھی کہ دوست نے ہی قتل کیا ہے اور توساتھ میں تصویر بھی تھی تو میں چکرا گیا کہ کتنا خوبرو نوجوان اور کتنی بیدردی سے اس بیچارے کو قتل کیا گیا ہے
آخر کیا وجہ تھی اسے کیوں قتل کیا گیا؟ اور اگر قاتل دوست تھا تو اس نے قتل کیوں کیا؟ کیا ضیغم مجتبیٰ یا اس کے کسی جاننے والے کو اس معاملے کی کوئی خبر تھی؟ آخر ایسا خوبرو نوجوان قتل کیوں ہوا؟کیا گھر والوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس کے دوست کس قسم کے ہیں؟
یہ ساری باتیں ابھی راز ہی ہیں

ضیغم مجتبیٰ کی لاش چیخ چیخ کر دہائی دے رہی تھی لیکن لاش کی آواز کون سن سکتا ہے

Monday, August 6, 2018

کیا واقعی تبدیلی آچکی ہے؟

تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ چکی ہے


آج سے قریباً ایک سال قبل نومبر کے مہینے میں میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منتقل ہوا

جب میں منتقل ہوا تو اس وقت رات کو صرف ایک گھنٹہ بجلی جاتی تھی بعد میں ماچ کے بعد وہ بھی نہیں جا رہی تھیلیکن اب پھر سے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی ہے

آج صبح سے 4 گھنٹے بجلی جا چکی ہے
ذمہ دار کون ؟ وہ حکومت جو 5 سال حکومت کر کے گئی لیکن لوڈ شیڈنگ ختم یا وہ جو اس ملک کو عملی طور پر چلا رہی ہے ۔یا وہ حکمت جو بہت جلد اقتدار میں آئے گی ۔ یا ہم خود


چلیں اسے چھوڑیں ایک اور بات بتاتا ہوں

اسلام آباد جب بنا تو اس وقت ایک جگہ کو پارک کے لئے مختص کیا گیا کہ یہاں پارک بنے گا لیکن وہاں پارک بننا تو دور کی بات وہاں لوگوں نے قبضہ کر کہ اپنے گھر بنا لئے
دو مشہور شخصیات جن کے یہاں گھر ہیں ان میں سے ایک پاکستان کے اگلے وزیرِاعظم اور دوسرا ہمارے عظیم ہیرو جناب عبدالقدیر خاں ہیں
اس کا کیس ابھی بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے
عوامی جگہ پر پارک بنانے کی بجائے لوگوں کا اربوں کی جگہ پر رہائش گاہ بنانے کا ذمہ دار کون

اسے بھی چھوڑیں

آج محترم عمران خاں صاحب میریٹ گئے تو روٹ لگنے پر برہم تھے لیکن میں اسلام آباد کا ایک رہائشی یہ بات رد کرتا ہوں کہ یہ سادگی ہے کیونکہ ہر جگہ پر خودکار نظام کے تحت ہر آنے جانے والے کی تصاویر بنتی ہیں اور اگر اتنی ہی سادگی ہے تو بنی گالا کی عوام کو کیوں صبح و شام ذلیل کرواتے ہو

جی ہاں بنی گالا کورنگ روڈ کی لمبائ قریباً 5 کلو میٹر ہے جہاں پر 3 جگہ پر تلاشی ہوتی ہے

اب بیٹھا سوچ رہا ہوں اور تحریر لکھ کر بجلی آنے کا انتظار کر رہا ہوں جو پچھلے 4گھنٹے سے بند ہے

کیا واقعئ تبدیلی آ چکی ہے یا یہ میرا وہم ہے

شکریہ

تحریر: صہیب حیدر
BS POLITICAL SCIENCE